روزوں کے مختصر احکام و مسائل
روزہ کا معنی ومفہوم
روزہ اردو زبان کا لفظ ہے جس کو عربی زبان میں “صوم” یا “صیام” کہا جاتا ہے، اس کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے رُکنا اور اس کو چھوڑ دینا، اسی بنیاد پر کھانے، پینے اور جماع سے رک جانے والے کو صائم کہا جاتا ہے، اسی طرح خاموش رہنے والے کو بھی صائم کہا جاتا ہے، کیوں کہ وہ گفتگو کو چھوڑ دیتا ہے اوراس سے رک جاتا ہے۔(لسان العرب: 12/ 250)
روزہ کی شرعی تعریف
اللہ تعالی کی عبادت وبندگی کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے،پینے اور روزہ توڑنے والی دیگر تمام چیزوں سے رکے رہنے کا نام روزہ ہے۔
(الجامع لاحکام القرآن :1/ 182)
(الشرح الممتع:6/ 210)
روزوں کے مختصر احکام و مسائل
ماہ رمضان کے روزے کا حکم
ماہ رمضان کا روزہ ہرعاقل، بالغ، صحت مند اور مقیم مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: “يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ” اے مومنو! تم پر (رمضان) کے روزے فرض کیے گئے ہیں،جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔(البقرۃ:183)
نیز اللہ تعالی نے فرمایا: “فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ” جو شخص اسے ( یعنی ماہ رمضان) پالے، اسے چاہیے کہ وہ وجوبی طور پر روزہ رکھے۔( البقرة: 185)
ماه رمضان کے روزے کب فرض ہوئے؟
ماہ رمضان کے روزے ماہ شعبان 2 ہجری میں فرض ہوئے، اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام اپنی زندگی میں نو سال رمضان کے روزے رکھے ہیں ۔(زاد المعاد: 3/ 27 ، المجموع: 2/ 250 ، نیل الاوطار : 3/ 151)
ماہ رمضان کے روزے کب فرض ہوتے ہیں؟
ماہ رمضان کے روزے ماہ رمضان کے داخل ہوتے ہی(یعنی شرعی طریقے پر رمضان کے چاند کی رؤیت ثابت ہوتے ہی) فرض ہوتے ہیں ۔نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:” ” لَا تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ، صُومُوا لِلرُّؤْيَةِ، وَأَفْطِرُوا لِلرُّؤْيَةِ ” ماہ رمضان کے داخل ہونے سے پہلے روزہ نہ رکھو، رمضان کا چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو، اور شوال کا چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو۔(صحیح النسائی:2129) اور ایک حدیث میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ” لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ” جب تک تم رمضان کا چاند دیکھ نہ لو روزہ نہ رکھو، اور جب تک تم شوال کا چاند دیکھ نہ لو تب تک روزہ رکھنا بند نہ کرو۔( بخاری: 1906، مسلم 1080)
ماہ رمضان کے داخل ہونے کا ثبوت
ماہ رمضان کے داخل ہونے کا ثبوت شرعی طریقے پر رمضان کے چاند کی رؤیت اور چاند نظر آنے کی عینی گواہی یا ماہ شعبان کے پورے تیس دن مکمل ہونے سے ہوتاہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ” صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ ” ( رمضان) کا چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور( شوال )کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا بند کرو، اور اگر ( آسمان میں بادل ہونے کی وجہ سے) تم پر چاند چھپ جائے، تو شعبان کے تیس دن پورے کرلو(بخاری1909، مسلم :1081)
رمضان کے چاند کے ثبوت کے لیے ایک دیانت دار مسلمان کی گواہی کافی ہے
ماہ رمضان کے چاند کی رؤیت اور اس کے ثبوت کے لیے تمام مسلمانوں کا چاند دیکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ ایک دیانتدار مسلمان کا چاند دیکھ لینا کافی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:” تراءى الناسُ الهلالَ، فأخبرتُ النبيَّ ﷺ أني رأيتُه، فصام وأمر الناسَ بالصيامِ” لوگ رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کررہے تھے ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا(صحیح ابو داؤد: 2052) اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کے چاند دیکھنے کی گواہی قبول کرلی اور تمام مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی)
روزہ کے آغاز واختتام کے لیے جنتری اور کلنڈر کا اعتبار نہیں
ماہ رمضان کے روزوں کے آغاز واختتام کے لئے جنتری و کلینڈر اور فلکیاتی حساب کا سرے سے کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔بلکہ رؤیت ہلال اور چاند دیکھنے کا یا شعبان کے تیس دن مکمل ہونے کا اعتبار ہوگا، کیوں کہ دین اسلام نے ہمیں رمضان کے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا اور شوال کا چاند دیکھ کر روزہ ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر آسمان میں بادل ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔(بخاری و مسلم)
چاند دیکھنے کی دعاء
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند کو دیکھتے تو یہ دعاء پڑھتے ” اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ “.
اے اللہ تو چاند کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ ( اے چاند) میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔
( سنن الترمذی : 3451، وصححه الألباني فی صحیح الجامع الصغیر : 6677)
موبائل، ریڈیو، ٹی وی کے ذریعہ چاند کی خبر کا حکم
رؤیت ہلال اور چاند نظر آنے کا مسئلہ چوں کہ دین اسلام کا ایک مستقل اور اہم مسئلہ ہے، اس لئے اس سلسلے میں موبائل، ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کے ذریعہ چاند کی خبر کو درج ذیل شرائط و قیود کی بناد پر شرعی حیثیت حاصل ہوگی۔
خبر تفصیلی ہو، اور ذمہ دار علماء کی جماعت کی طرف سے ہو، یا کم از کم اس جماعت کی ذمہ داری کے حوالہ سے ہو کہ انہوں نے باضابطہ شرعی شہادت لے کر چاند ہوجانے کا فیصلہ کیا ہے، مثلا کوئی متدین مسلمان ریڈیو اسٹیشن سے یہ اعلان کرے کہ ہمارے شہر کے فلاں ذمہ دار رؤیت ہلال کمیٹی یا جماعتِ علماء یا قاضی شریعت، یا امیر جماعت یا مفتی نے شرعی ثبوت کے بعد یہ اعلان کرایا ہے، اس طرح کی صراحت و تفصیل کے ساتھ اعلان پر روزہ رکھنا اور عید منانا درست ہوگا، اور اگر کوئی متدین مسلمان نہ ہو بلکہ ریڈیو کا غیر مسلم ملازم ہو، اور وہ کسی ذمہ دار رؤیت ہلال کمیٹی یا جماعتِ علماء یا قاضی شریعت کے فیصلہ کا اعلان مذکورہ تفصیل کے ساتھ کرے تو یہ خیر قابل تسلیم و قبول ہوگی، اور اس پر اعتماد کرکے روزہ رکھنا اور عید منانا جائز ودرست ہوگا۔(رمضان المبارک کے فضائل واحکام از علامہ عبیداللہ مبارکپوری:14-15)
دور بین سے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا حکم
دور بین سے چاند دیکھ کر روزہ رکھنا درست ہے، اس لئے کہ دور بین سے چاند نظر آنے کا اعتبار کیا جائے گا۔کیوں کہ دور بین موجودہ چیز ہی کو دکھاتی ہے، غیر موجود چیز کو موجود نہیں کر سکتی۔(فتاوی افکار اسلامی از ڈاکٹر حافظ محمد شہباز عالم:444)
روزوں کے مختصر احکام و مسائل
روزہ کے وجوب کی شرطیں
ماہ رمضان کے روزے کے وجوب کے لیے مندرجہ ذیل شرطیں ہیں، جن مردوں اور عورتوں میں یہ شرطیں نہیں پائی جائیں گی ان پر ماہ رمضان کے روزے واجب اور فرض نہیں ہوں گے اور نہ ہی ان کا روزہ درست ہو گا۔
پہلی شرط: مسلمان ہونا
لہذا غیر مسلم کو رمضان کے روزوں کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ کیوں کہ روزہ اس پر فرض نہیں ہے۔اور اگر وہ روزہ رکھے گا بھی تو اس کا روزہ درست اورقابلِ قبول نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: “وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ” ان کے صدقات کے قبول نہ ہونے کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ( کافر) ہیں ۔( التوبة: 54)
دوسری شرط: عاقل ہونا
لہذا مجنون اور پاگل پر نہ تو روزہ واجب ہوگا اور نہ ہی اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ ام المؤمنين عائشۃصدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ” رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ ؛ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ ” تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھایا لیا گیا ہے: سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، نابالغ بچے سے یہاں تک کہ وہ بڑا اور بالغ ہوجائے اور مجنون و پاگل سے یہاں تک کہ وہ عقل مند ہو جائے ۔( سنن ابی داؤد: 4403).
تیسری شرط : صحت مند اور تندرست ہونا
لہذا اگر کوئی بیمار ہو تو بیماری کی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا واجب نہیں ہوگا بلکہ شفایاب اور صحت مند ہونے کے بعد فوت شدہ روزوں کی قضاء اس پر واجب ہوگی۔
چوتھی شرط: مقیم ہونا
لہذا مسافر پر حالت سفر میں روزہ رکھنا فرض نہیں ہوگا بلکہ مقیم ہونے کے بعد فوت شدہ روزوں کی قضاء اس پر واجب ہوگی۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ” وَمَن كَانَ مَرِیضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرࣲ فَعِدَّةࣱ مِّنۡ أَیَّامٍ أُخَرَ ” جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے. (البقرۃ:185)
پانچویں شرط: عورتوں کا حیض و نفاس سے پاک ہونا
لہذا حیض ونفاس کی حالت میں عورتوں کا روزہ رکھنا جائز اور درست نہیں ہوگا۔ البتہ ماہ رمضان کے بعد جب وہ پاک ہوجائیں گی تو ان پر فوت شدہ روزوں کی قضاء واجب ہوگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہوتیں تو ہمیں فوت شدہ روزوں کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ ( صحیح مسلم : 335).
روزوں کے مختصر احکام و مسائل
روزہ کے ارکان
روزہ کے دو اہم ارکان ہیں، جن کے بغیر روزہ صحیح اور درست نہیں ہوگا۔
پہلا رکن: نیت
دیگر تمام عبادتوں کی طرح روزہ کے لیے نیت ضروری ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ” إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى” تمام نیک اعمال( کی قبولیت کا دار و مدار) نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گاجس کی اس نے نیت کی ( بخاری: 1 ۔ مسلم : 1907). فرض روزے کے لیے ضروری ہے کہ ہر دن کے روزہ کے لیے فجر یعنی صبح صادق سے پہلے ہی نیت کرلے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ “. جس شخص نے فجر( صبح صادق) سے پہلے( فرض) روزہ کی نیت نہیں کی اس کا روزہ ( درست) نہیں ۔( صحیح ابی داؤد: 2143). اور ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ “. اس شخص کا روزہ ہی نہیں جس نے رات کو(صبح صادق سے پہلے) روزہ کی پختہ نیت نہیں کی۔( صحیح ابن ماجۃ : 1379). البتہ نفلی روزوں کی نیت زوال آفتاب سے پہلے پہلے تک کی جا سکتی ہے چنانچہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دن میں میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ( کھانے پینے کی ) کوئی چیز ہے؟ ہم نے جواب دیا نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا ” تب میں روزے سے ہوں(یعنی تب میں نے روزہ کی نیت کر لی”. تنبیہ: واضح رہے کہ نیت کی جگہ دل ہےاور دل کے عزم و ارادہ کا نام ہی نیت ہے، لہذا دیگر تمام عبادتوں کی طرح روزے کی نیت زبان سے کرنا بدعت وگمراہی ہےکیوں کہ زبان سے نیت کرنا اور اس کے لیے الفاظ ادا کرنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے۔
دوسرا رکن
صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور روزہ توڑنے والی دیگر تمام چیزوں سے اجتناب و احترازکرنا۔
اللہ تعالی نے ادشاد فرمایا ” وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ” تم کھاتے پیتے رہو ۔ یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگا (صبح صادق) سیاہ دھاگا (رات) سے اچھی طرح واضح ہوجائے، پھر رات( غروب آفتاب تک) روزہ پورا کرو۔ ( البقرة: 187)
روزوں کے مختصر احکام و مسائل
ماہ رمضان اور روزہ کے فضائل
ماہ رمضان کے بہت سے فضائل قرآن ن وحدیث میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے :
(1) قرآن جیسی مقدس کتاب کا نزول ماہِ رمضان میں ہواہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ” شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ” رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاہے۔(البقرۃ : 185)
(2) رمضان کے مہینے میں اللہ تعالی جنت اور رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیتا ہے اور شیاطین کو جکڑ دیتا ہے۔نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ” إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ “.
جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان (جنت ورحمت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ (بخاری : 1899، مسلم : 1079)
(3) رمضان میں شب قدر جیسی عظمت و رحمت اور برکت والی رات ہے جس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں (83 سال 4 مہینوں) کی عبادتوں سے بہتر (زیادہ اجر وثواب) ہے۔ (سورۃ القدر)
(4) ماہ رمضان میں اللہ تعالی ہر رات لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : ” وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ ”
اللہ تعالی رمضان میں ہر رات لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔(صحیح ابن ماجہ :1331)
(5) رمضان کے مہینہ میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کرنے کے برابر ملتا ہے۔ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : ” فَإِنَّ عُمْرَةً فِيهِ تَعْدِلُ حَجَّةً “.
ماہ رمضان میں عمرہ کا (اجر وثواب) حج کے برابر ہوتا ہے۔ (بخاری : 1863، مسلم : 1256)
روزہ کے فضائل
روزہ کے بہت سے فضائل قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں جن میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے :
(1) رمضان کا روزہ رکھنے سے اللہ تعالی گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے-نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ”
جس نے ماہ رمضان کا روزہ ایمان و اخلاص کے ساتھ رکھا اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے۔(بخاری : 1901، مسلم : 759)
(2) روزہ جہنم سے بچاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہے یعنی روزہ رکھنے سے اللہ تعالی اپنے بندے کو جہنم کے عذاب سے نجات عطا فرماتا ہے۔ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : ” مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا ”
جس نے اللہ کی راہ میں (اللہ کو خوش کرنے کے لئے) ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالی اس کو جھنم سے ستر سال کے فاصلے ومسافت تک دور کردے گا۔ (بخاری : 2840، مسلم : 1153)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”
” الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ، كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ “.
روزہ جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ڈھال (ذریعہ) ہے جیسا کہ تم میں سے کسی کی ڈھال(بچاؤ کا ذریعہ) قتال ولڑائی میں ہوتی ہے)۔ (نسائی : 2232)
(3) روزہ دار کے لیے جنت میں ایک خاص دروازہ ہوگا جس میں صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے، دوسرے لوگوں کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہيں ہوگی۔ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : “جنت کے ایک دروازہ کا نام ” ریان” ہوگا، قیامت کے دن اس دروازے سے صرف جنتی لوگ داخل ہوں گے ان کے علاوہ اس دروازے سے کسی اور کو داخل ہونے نہیں دیا جائے گا”۔ (بخاری : 1896، مسلم : 1152)
(4) روزہ قیامت کے دن روزہ دار بندے کے لئے سفارش کرےگا اور اللہ تعالیٰ اس کی شفارش کو روزہ دار کے حق میں قبول فرمائے گا۔ (صحیح الترغیب : 984)
(5) روزہ دار بندے کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ اور پسندیدہ ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ”
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (پسندیدہ) ہے۔(بخاری : 1964)